مرض الموت میں خواجہ خواجگان محبوب الاولیاء حضرت خواجہ نظام الدین اپنے خدام کے ساتھ‘ حضرت قاضی ضیا الدین سنامی کے یہاں عیادت اور مزاج پرسی کیلئے تشریف لے گئے‘ چونکہ حضرت خواجہ خواجگان شرعی حدود وقیود میں کسی باریش خوش گلو سے عشق حقیقی کو بھڑکانے اور دل میں لگی عشق کی آگ کی تسکین کے لیے اشعار سنتے تھے جس کو اصطلاح تصوف میں سماع کہا جاتا ہے‘ وہ اس کو نہ صرف جائز فرماتے تھے‘ حضرت خواجہ کے یہاں سماع کا معمول تھا مگر قاضی ضیاء الدین سنامی جو بڑے متبحر عالم تھے اور اصول شریعت میں ان پر احتیاط کا پہلو اور رنگ غالب تھا وہ سماع کو بدعت سمجھتے اور فرماتے تھے اور اس سلسلہ میںان کو سماع کے بدعت ہونے پر انشراح تھا‘ اس لیے دونوں بزرگوں میں اس مسئلہ میں شدیداختلاف تھا‘ اور قاضی صاحب مسلسل سماع کے سلسلہ میں ان پر اپنی رائے کا نہ صرف اظہار فرماتے تھے بلکہ اس سلسلہ میں خواجہ خواجگان حضرت خواجہ نظام الدین پر کھل کر نکیر فرماتے تھے۔ گھر کے باہر جاکر خواجہ نے قاضی ضیاء الدین کے یہاں کسی سے اطلاع کرائی کہ نظام الدین عیادت کے لیے حاضر ہوا ہے‘ قاضی صاحب نے کہلوایا کہ آپ کے یہاں سماع کا معمول ہے اور میرے نزدیک سماع بدعت ہے‘ میں مرتے وقت کسی بدعتی کی صورت نہیں دیکھنا چاہتا‘ خواجہ صاحب نے کہلوایا کہ بدعتی بدعت سے توبہ کرکے آیا ہے‘ خادم نے قاضی صاحب کی خدمت میں جاکر عرض کیا کہ حضرت نے فرمایا ہے کہ بدعتی بدعت سے توبہ کرکے حاضر ہوا ہے‘ قاضی صاحب بے تاب ہوگئے‘ خدام سے کہا مجھے اٹھاؤ‘ خدام کی مدد سے کہ پاؤں بھی زمین پر نہ ٹکتے تھے‘ گھسٹتے ہوئے دروازہ پر پہنچے اور سر سے عمامہ اتار کر خدام سے کہا اس کو راستہ میں بچھادو اور حضرت نظام الدین سے عرض کیا کہ آپ اس عمامہ پر چل کر تشریف لائیے:
وہ جن کے سونے کو فضیلت ہے عبادت پر
انہیں کی ارتقا پر ناز کرتی ہے مسلمانی
یہ ہیں ہمارے آباء اور اکابرین‘ جن کی زندگی کے روشن خطوط سے تاریخ اسلامی بھری پڑی ہے اور جنہوں نے ’’جو اللہ کیلئے دے اور اللہ کے لیے منع کرے‘ جو اللہ کیلئے محبت کرے اور اللہ کیلئے بغض کرے تو اس نے ایمان کومکمل کرلیا‘‘ کے روشن خطوط اپنی زندگی سے قائم کیے‘ خواجہ خواجگان کے روحانی مقام کی پوری واقفیت‘ اور اپنے زمانہ میں عوام و خواص یہاں تک کہ بادشاہان وقت کے یہاں بھی ان کی مقبولیت اور عظمت کے باوجود شریعت اسلامی کے کسی مسئلہ میں ذرا مداہنت کا شائبہ بھی نہیں تھا اور ببانگ دہل اس پر زندگی بھر نکیر فرماتے رہے مگر جب معلوم ہوا کہ اللہ کے احکام شریعت کا یہ حساس مسئلہ ختم ہوگیا ہے تو اپنا عمامہ قدموں کے نیچے بچھا کر اس حال میں استقبال کیلئے حاضر ہوگئے۔ہمارے اکابرین کا صرف اور صرف اللہ کیلئے محبت اور بغض، اور اللہ کے دین کیلئے تائید و اختلاف تھا اس کے بارے میں خوشخبری دی گئی ہے کہ علماء کا اختلاف تھا اس کے بارے میں خوشخبری دی گئی ہے کہ علماء کا اختلاف امت کیلئے رحمت ہے مگر آج ہم لوگ اپنی نفسانی مخاصمت کیلئے شریعت اسلامی کے مسائل کو ڈھال بناتے ہیں اور اپنے نفسانی بغض کیلئے ایک دوسرے کی تنقیص یہاں تک کہ تکفیر کیلئے نصوص تلاش کرتے ہیں‘ اس کی وجہ سے آج علماء میں اختلاف ہوتا ہے تو لوگوں میں دین سے دوری اور کل اہل دین سے بدظنی پیدا ہوتی ہے اور ان بزرگوں کے اختلاف سے لوگوں‘ علماء اور اہل دین کے وقار میں زیادتی‘ اور اہل دین اور اہل علم سے عقیدت اور ان کی محبت میں اضافہ ہوتا تھا‘ اس لیے ان کی محبت و بغض‘ تائید اور اختلاف صدفیصد اللہ کی رضا اور اللہ تعالیٰ کے دین کی بقا اور احیاء کیلئے ہوتا تھا۔ کاش! ہم اپنے ان اسلاف کے نقش قدم پر چل کر اپنے دین پر جمتے‘ اور اپنی تائید و اختلاف کو محض اعلائے کلمۃ اللہ کیلئے کرتے!!!
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں